اوآئی سی ممالک غزہ میں جنگ بندی کیلئے مل کرکام کریں، اسحاق ڈار

بنجول(آن لائن)پاکستان نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی فوج کی جاری ظالمانہ کارورائیوں پرگہری تشویش کااظہارکیا ہے جبکہ بھارت سے انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں کو روکنے اور حریت رہنماؤں کو رہا کرنے کا مطالبہ کر دیا۔نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ محمد اسحاق ڈار نے گیمبیا میں او آئی سی کی پندرہویں اسلامی سربراہ کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ او آئی سی کے رکن ممالک پرزوردیا کہ وہ فوری اور غیرمشروط جنگ بندی اور محصور فلسطینی عوام کو بلاتعطل انسانی امداد کی فراہمی کیلئے مل کر کام کریں۔انہوں نے فلسطین کو اقوام متحدہ کے مکمل رکن کے طورپر تسلیم کرنے ، دو ریاستی حل تسلیم کرنے کیلئے امن عمل کی دوبارہ بحالی اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک ایسی آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے پاکستان کی حمایت کا اظہارکیا جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔نائب وزیراعظم نے بھارت کے غیرقانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں بھارتی مظالم خصوصاً پانچ اگست 2019ء کے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے او آئی سی پرزوردیا کہ وہ جموں وکشمیر پرلائحہ عمل کو بروئے کار لائے۔انہوں نے اسلامی تعاون تنظیم پرزوردیا کہ وہ مقبوضہ خطے میں انسانی حقوق کی تمام خلا ف ورزیوں کے خاتمے ، حریت رہنمائوں کی رہائی اور غیرقانونی اوریکطرفہ اقدامات منسوخ کرنے کیلئے بھارت پر دبائو ڈالے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ میں ہز ایکسی لینسی، صدر اڈاما بارو، اور برادر عوام اور جمہوریہ گیمبیا کی حکومت کا ان کے گرمجوشی سے استقبال اور بہترین مہمان نوازی کے لیے تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، 15 ویں اسلامی سربراہی کانفرنس کی صدارت سنبھالنے پرمیری دلی مبارکباد قبول کریں، حرمین شریفین کے متولی شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہد شہزادہ اور سعودی عرب کے وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کے اتحاد اور فلاح و بہبود کے لیے ان کی قابل قدر خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ او آئی سی کا یہ سربراہی اجلاس ایک نازک موڑ پر منعقد ہو رہا ہیدنیا کے عوام بالخصوص امت مسلمہ کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن کے لیے او آئی سی کو متحد اور مربوط جواب دینا چاہیے۔یہ سربراہی اجلاس غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے جاری وحشیانہ فوجی حملوں کے سیاہ سائے میں منعقد ہو رہا ہے، 35 ہزار سے زائد فلسطینی شہری، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، مارے جا چکے ہیں،ہزاروں زخمی اور اسرائیل کی اندھا دھند بمباری سے بیس لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، جان بوجھ کر انسانی امداد سے انکار کیا جا رہا ہے، بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اسے ”قابل تعظیم نسل کشی” قرار دیا ہے،انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ نومبر میں ریاض میں ہونے والی مشترکہ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس نے دور رس فیصلے کیے تھے، اس سربراہی اجلاس میں ہمیں فلسطین کی آزادی کے لیے اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے متحرک ہونا چاہیے ، فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے،محصور لوگوں کے لیے بلا روک ٹوک انسانی امداد کو یقینی بنایا جائے، تنازعات کے پھیلاؤ کو روکا جائے، اقوام متحدہ کے مکمل رکن کے طور پر فلسطین کے داخلے کی حمایت جاری رکھیں، دو ریاستی حل کے حصول کے لیے امن عمل کو دوبارہ شروع کرنا چاہئے، 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر فلسطین کی ایک قابل عمل، محفوظ، متصل اور خودمختار ریاست کا قیام، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، ہمیں اسرائیل کو جوابدہ بنانے کے اقدامات اور فلسطینی عوام کے تحفظ کے لیے ایک طریقہ کار پر بھی غور کرنا چاہیے، اسحاق ڈارکا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے لیے جموں و کشمیر کے تنازع کا حل بھی ضروری ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی توثیق کرتی ہیں ، ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام استصواب رائے کے ذریعے اس کے عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے، 5 اگست 2019 کے بعد سے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں، بشمول چوتھے جنیوا کنونشن اور بھارت کے اپنے وعدوں اور ذمہ داریوں کی بھی خلاف ورزی ہیں، ہم کشمیریوں کے حق خودارادیت کی غیر متزلزل حمایت اور 5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو مسترد کرنے پر او آئی سی کے تمام رکن ممالک کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں، کشمیر کاز کو فروغ دینے کے لیے ہمیں جموں و کشمیر پر او آئی سی ایکشن پلان پر عمل درآمدکرنا ہوگا،اسحاق ڈار نے کہا کہ بھارت سے انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں کو روکنے اور حریت رہنماؤں کو رہا کرنے کیا جئاے ،اس کی غیر قانونی آبادیاتی اور دیگر یکطرفہ تبدیلیوں کو معکوس کرنا ہوگا،ہم جاری لوک سبھا انتخابات کے دوران ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کی طرف سے پاکستان مخالف بیانات اور اسلامو فوبک بیانیہ میں اضافے کی شدید مذمت کرتے ہیں ،ان کی بیان بازی سے مسلمانوں کو پسماندگی اور علاقائی استحکام کو خطرہ ہے، ہندوتوا کے نظریے کا پرتشدد نفاذ بین الاقوامی جانچ پڑتال کی ضمانت دیتا ہے، اقوام متحدہ اور او آئی سی کو صورتحال پر کڑی نظر رکھنی چاہیے،ہمارے درمیان سب سے مضبوط پابند عناصر میں سے ایک توحید اور ختم نبوت پر ہمارا غیر متزلزل اعتقاد ہے، بدقسمتی سے، مسخ شدہ اسلام مخالف مواد کی وسیع پیمانے پر اور بلا روک ٹوک دستیابی اور اسلام کی دقیانوسی تصورات، اس کی لازوال اقدار اور اس کی قابل احترام شخصیات بین المذاہب تنازعات کے سب سے بڑے ذرائع میں سے ایک بن چکے ہیں، معززین سے درخواست کروں گا کہ وہ عالمی انفارمیشن نیٹ ورکس/پلیٹ فارمز بالخصوص گلوبل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اثرانداز ہونے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنائیں ، گستاخانہ، اسلام مخالف اور اسلام فوبک مواد کے لیے مواد کے ضابطے کی پالیسیوں کے اطلاق کو ہم آہنگ کیا جائے، او آئی سی کی طرف سے ایک مشترکہ قرارداد کو اپنانے کی تجویز پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ میں واضح طور پر او آئی سی میں ایک مرکزی رابطہ گروپ کے ذریعے ان عالمی کارپوریٹس کے ساتھ مشغول ہونے کا طریقہ کار وضع کیا جائے، قرارداد میں او آئی سی کے اراکین کی جانب سے معیاری پالیسی اقدامات کا ایک مجموعہ بھی شامل ہونا چاہیے،اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم امت کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل اس معاملے پر تعاون کرنے میں ناکام رہتے ہیں، اس بات کی تعریف کرنا چاہوں گا کہ او آئی سی کی مشترکہ کوششوں کے ذریعے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر نامزد کیا، اس سال 15 مارچ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے او آئی سی کی ایک اور قرارداد منظور کی جس میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری بھی شامل ہے،ہمیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے ساتھ مل کر اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے ایک ایکشن پلان تیار کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے، اسحاق ڈار نے اسلاموفوبک واقعات کا ایک جامع مجموعہ؛ قومی قانون سازی کے لیے ایک ٹیمپلیٹ، استغاثہ کے لیے احتساب کا طریقہ کار، اور متاثرین کی قانونی مدد کا مطالبہ کیا اور کہا کہ خطرے سے دوچار اسلامی مذہبی اور ورثے کے مقامات کی نقشہ سازی ہونے چاہئے ، آن لائن اسلامو فوبک اور نفرت انگیز تقاریر کے انسداد کے لیے اقدامات اور اسلامو فوبیا کی بنیادی وجوہات اور اثرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ کردار ادا کرنے کے باوجود، بدقسمتی سے، پاکستان کو ہماری سرحدوں کے پار سے بیرونی مالی امداد، اسپانسر اور حمایت یافتہ دہشت گردی کا سامنا ہے، او آئی سی کو اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی تمام شکلوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ داعشـکھرا سان اور ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے، او آئی سی کو افغان عبوری حکومت کی انسداد دہشت گردی، خواتین کے حقوق اور جامع طرز حکمرانی کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نبھانے کی ترغیب دینی چاہیے، بین الاقوامی برادری کو ضرورت مند افغانوں کو مناسب انسانی امداد فراہم کرنی چاہیے، اس کی معیشت کو بحال کرنے میں مدد کرنی چاہیے اور علاقائی “رابطے” کے منصوبوں کے جلد نفاذ میں مدد کرنی چاہیے، او آئی سی عالمی اقتصادی ترقی کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، ہمیں اجتماعی طور پر موسمیاتی تبدیلی کے وجودی خطرے سے نمٹنا چاہیے، 2022 میں پاکستان میں تباہ کن سیلابوں میں واضح ہے جس سے 34 بلین امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے، ترقی یافتہ ممالک کو مشترکہ لیکن تفریق شدہ ذمہ داریوں (CBDR) کے اصول کے مطابق مناسب مالیات، ٹیکنالوجی اور صلاحیت سازی میں مدد فراہم کرنے کے لیے اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے، پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دو سالہ مدت کے لیے غیر مستقل نشست کا امیدوار ہے،ہمیں او آئی سی کے تمام رکن ممالک کی فعال حمایت کا یقین ہے، اسحاق ڈارکا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنی سلامتی کونسل کی اصطلاح کو OIC کی ایک اہم آواز کے طور پر استعمال کرنے کے منتظر ہیں،پاکستان کی افریقی ممالک کے ساتھ یکجہتی، دوستی اور تعاون کی ایک طویل اور قابل فخر تاریخ ہے،ہم اقوام متحدہ کے نظام کو بحال کرنے اور سلامتی کونسل میں اصلاحات کی کوششوں کی بھی حمایت کرتے ہیں، او آئی سی کی متعلقہ قراردادیں اس بات کا اعادہ کرتی ہیں کہ کوئی بھی اصلاحاتی تجویز جو توسیع شدہ سلامتی کونسل میں اسلامی امہ کی مناسب نمائندگی کو نظر انداز کرتی ہے عالم اسلام کے لیے ناقابل ِقبول ہے، او آئی سی کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مسلمانوں کے اہداف اور امنگوں کو عالمی سطح پر پہچان اور احساس حاصل ہو،مجھے یقین ہے کہ گیمبیا کی قیادت میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس میں ہونے والی بات چیت اس اہم اور عظیم کوشش میں ایک تاریخی حصہ ڈالے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں