*بچوں کا عالمی دن: روشن مستقبل کے معماروں کا تحفظ*

بچے کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ اور مستقبل کا روشن چراغ ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم، صحت، اور فلاح و بہبود ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کے مسائل پر توجہ دینے اور ان کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ہر سال 20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ بچوں کو بہتر زندگی فراہم کرنا نہ صرف ان کا حق ہے بلکہ ہماری اخلاقی اور اجتماعی ذمہ داری بھی ہے۔ بچوں کا عالمی دن پہلی مرتبہ 1954 میں اقوام متحدہ نے متعارف کروایا۔ اس کا مقصد تھا کہ بچوں کے حقوق کی حمایت کی جائے، ان کی تعلیم و تربیت کے لیے اقدامات کیے جائیں، اور دنیا بھر میں ان کے مسائل کو اجاگر کیا جائے۔ یہ دن 20 نومبر کو منانے کی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ اسی دن 1989 میں اقوام متحدہ نے بچوں کے حقوق کا معاہدہ (Convention on the Rights of the Child) منظور کیا تھا، جسے تاریخ میں بچوں کے لیے ایک انقلابی قدم کہا جا سکتا ہے۔ اس معاہدے میں بچوں کے بنیادی حقوق، جیسے تعلیم، تحفظ، صحت، اور مساوی مواقع فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے معاہدے کے مطابق بچوں کو چار بنیادی حقوق دیے گئے ہیں: زندگی اور بقا کا حق: ہر بچے کو زندگی گزارنے اور اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کا حق حاصل ہے۔ ترقی کا حق: تعلیم، کھیل کود، اور سماجی و ذہنی ترقی کے مواقع بچوں کا حق ہیں۔ تحفظ کا حق: ہر بچے کو تشدد، استحصال، اور کسی بھی قسم کے نقصان سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ شمولیت کا حق: بچوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا مکمل حق حاصل ہونا چاہیے۔ یہ حقوق اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچے معاشرے میں اعتماد کے ساتھ اپنی جگہ بنائیں اور آنے والے کل کے لیے بہتر شہری بن سکیں۔

بچوں کے عالمی دن کا مقصد صرف جشن منانا نہیں بلکہ ان مسائل کی نشاندہی کرنا ہے جن کا سامنا دنیا کے لاکھوں بچے روزانہ کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج بھی دنیا میں لاکھوں بچے غربت، بھوک، تعلیم کی کمی، اور بیماریوں کا شکار ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، جہاں ان کی زندگی اور مستقبل دونوں خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بچوں کے مسائل نہایت سنگین ہیں۔ یہاں لاکھوں بچے اسکول جانے کی بجائے مزدوری پر مجبور ہیں۔ بچوں سے بھیک منگوانا، ان پر تشدد، اور انہیں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنانا ہمارے معاشرے کے چند افسوسناک پہلو ہیں۔ ایسے حالات میں بچوں کا عالمی دن ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کیسا مستقبل دے رہے ہیں؟

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی قوانین موجود ہیں، مگر ان پر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہے۔ حالیہ برسوں میں حکومت نے بچوں کی تعلیم اور صحت کے فروغ کے لیے کچھ منصوبے شروع کیے ہیں، لیکن ان کا دائرہ محدود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان منصوبوں کو قومی سطح پر پھیلایا جائے اور ہر بچے تک ان کے حقوق پہنچائے جائیں۔ معاشرتی سطح پر بھی ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ بچوں کی بہتر تربیت اور فلاح و بہبود کے لیے والدین، اساتذہ، اور سماجی تنظیموں کو مشترکہ طور پر کام کرنا چاہیے۔ ہم سب کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ اپنے گھروں، محلوں، اور کمیونٹی میں کسی بچے کے ساتھ زیادتی، تشدد، یا ناانصافی کو برداشت نہیں کریں گے۔

تعلیم وہ بنیادی حق ہے جو بچوں کو خودمختار اور بااختیار بناتا ہے۔ تعلیم کے بغیر بچے اپنے حقوق سے بھی ناواقف رہتے ہیں۔ حکومت کو ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جو بچوں کی مفت اور معیاری تعلیم کو یقینی بنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین اور معاشرے کو یہ سمجھنا ہوگا کہ تعلیم بچوں کی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بچوں کا عالمی دن ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی اپنے بچوں کو وہ مواقع فراہم کر رہے ہیں جن کے وہ حقدار ہیں؟ ایک خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے بچوں کو ایک محفوظ، صحت مند، اور خوشحال ماحول دیں۔ آج کا دن ہمیں یہ عہد کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ ہم ہر بچے کو روشن مستقبل دینے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں گے، کیونکہ یہی بچے کل ہمارے ملک کا نام روشن کرینگے.
تحریر عبد الرشید استرانہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں