جو جتنا زیادہ جھوٹ بولے گا اتناہی سوشل میڈیا پر بِکے گا، چیف جسٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جو جتنا زیادہ جھوٹ بولے گا اتناہی سوشل میڈیا پر بکے گا،سپریم کورٹ میں ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو نوٹسز جاری کرنے کے حوالے سے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی جبکہ عدالت نے میڈیا ریگولیشنز کے حوالے سے دائر درخواستوں پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو اگلی سماعت پر طلب کر لیا ہے جبکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل اگر میں ایک کیس کو اوپن اینڈ شٹ کہوں تو وہ مطیع اللہ جان کیس کا ہے، آپ کے پاس اس واقعے کی ویڈیو ہے، حکومت اخبار میں اشتہار کیوں نہیں دیتی ان لوگوں کی تلاش ہے، اگر کچھ نہیں کرتے تو ایسا آرڈر آئے گا جو آپ کو پسند نہیں آئے گا، کیا انہوں نے انٹرویو ریکارڈ کیا تھا؟ یہ کیسا جرنلزم ہوا؟ اگلے دن میری اہلیہ کے بارے میں غلط خبر چل گئی،کہا گیا وہ ایک میٹنگ میں بیٹھی ہوئی تھیں، کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟ کہا جائے گا چیف جسٹس کی بیوی نے تو تردید جاری نہیں کی، کیا تاثر جائے گا اس خبر سے کہ چیف جسٹس کی اہلیہ آفیشل میٹنگ میں بیٹھی تھیں، ایسی خبر چلانے والوں کو کیا توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ کیا فرد جرم عائد کر کے انہیں جیل بھیجیں انھوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیے ہیں۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کی۔پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے اورکہاکہ کیس میں کچھ بھی ارجنٹ نہیں ہے، چیف جسٹس نے پوچھاکہ حیدر وحید کہاں ہیں؟صلاح الدین نے کہاکہ وہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ وہ مگر کورٹ اٹینڈ کرنے بھی نہیں آئے،کیا ان کی پٹیشن آزادی اظہار کو یقینی بناتی یا مزید روکتی؟ان کے کیس میں درخواست گزار کون تھے؟2022 سے یہ درخواست کس بنیاد پر دائر تھی کیا ان کامقصد پورا ہو گیا؟ درخواستگزاروں میں کوئی چکوال کا تھا کوئی اسلام آباد کا، کون سا مشترکہ مفاد تھا جو ان درخواستگزاروں کو ساتھ لایا تھا؟ میڈیا میں بڑی منتخب رپورٹنگ ہوتی ہے، اب یہ رپورٹ نہیں ہو گا یہ چھ درخواستگزار غائب ہو گئے، اسی لئے ہم نے کہا ہم اپنا یوٹیوب چینل چلائیں گے، کیا حیدر وحید والی درخواست کا کوئی پٹیشنر عدالت میں ہے؟ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیااورپوچھاکہ کیا اس طرح کی درخواست عدالت کا غلط استعمال نہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ بالکل یہ پراسیس کا غلط استعمال ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ایسی درخواستں عدلیہ کی آزادی یقینی بناتی ہیں یا اسے کم کرتی ہیں؟ اس پٹیشن کے تمام درخواستگزاروں کو نوٹس کر کے طلب کیوں نہ کریں؟اٹارنی جنرل کی درخواستگزاروں کو نوٹس کرنے کی حمایت کردی ہے جس پر عدالت نے اپنے حکم نامے میں ان درخواست گزاروں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے انہیں ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیاجس میں لکھوایاکہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق پٹیشن واپس لینے کی درخواست آئی،پٹیشن کے درخواستگزار عدالت آئے، نہ وکیل نہ ہی ایڈوکیٹ آن ریکارڈ، درخواست میں کہا گیا اب وفاقی حکومت میڈیا ریگولیشن کا معاملہ خود دیکھ رہی ہے، اٹارنی جنرل نے حکومت سے منسوب اس بات کی تردید کی، صلاح الدین کاموقف ہے کہ عوامی مفاد کی درخواست واپس نہیں ہو سکتی،صلاح الدین نے کہاکہ آرمی چیف کی توسیع سے متعلق ریاض حنیف راہی والی درخواست بھی واپس نہیں لینے دی گئی تھی، چیف جسٹس نے کہاکہ اپ کی ان لوگوں سے آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ تو نہیں ہوگئی؟وکیل نے کہاکہ ہم ایک صحافتی باڈی ہیں ایسی سیٹلمنٹ کے وسائل نہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ ضروری نہیں پیسے ہی ہوں یہ بھی ہو سکتا ہے کہا گیا ہو آئندہ میری خبر اچھی چھاپ دینا، بعدازاں سپریم کورٹ نے میڈیا ریگولیشن والی پٹیشن کے درخواست گزاروں کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیاہے اورعدالت نے درخواستگزاروں کو نوٹس جاری کر دیا۔چیف جسٹس نے پوچھاکہ کیا کوئی اور ارجنٹ معاملہ ہے؟ اس پربیرسٹر صلاح الدین کا مطیع اللہ جان کیس کا حوالہ دیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل اگر میں ایک کیس کو اوپن اینڈ شٹ کہوں تو وہ مطیع اللہ جان کیس کا ہے، اپ کے پاس اس واقعے کی ویڈیو ہے، حکومت اخبار میں اشتہار کیوں نہیں دیتی ان لوگوں کی تلاش ہے، اگر کچھ نہیں کرتے تو ایسا آرڈر آئے گا جو آپ کو پسند نہیں آئے گا، کیا انہوں نے انٹرویو ریکارڈ کیا تھا؟ یہ کیسا جرنلزم ہوا؟ اگلے دن میری اہلیہ کے بارے میں غلط خبر چل گئی،کہا گیا وہ ایک میٹنگ میں بیٹھی ہوئی تھیں، کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟ کہا جائے گا چیف جسٹس کی وائف نے تو تردید جاری نہیں کی، کیا تاثر جائے گا اس خبر سے کہ چیف جسٹس کی اہلیہ آفیشل میٹنگ میں بیٹھی تھیں، ایسی خبر چلانے والوں کو کیا توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ کیا فرد جرم عائد کر کے انہیں جیل بھیجیں،اپنے تھمب نیل اور اپنی خبر میں انہوں نے یہی کہہ دیا ، کیا زیادہ ری ٹوئٹس ، لائکس سے پیسے کمائے جارہے ہیں؟ کیا کسی صحافی پر جھوٹ بولنا ثابت ہوجائے وہ اس کی ممبر شپ ختم کریں گے؟ وکیل نے کہاکہ وارننگ دے کر، شوکاز کر کے ممبر شپ ختم کر سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ اس سے کیا ہو جائے گا؟ اپ آفیسر آف کورٹ ہیں حل بتائیں، وکیل نے کہاکہ ہتک عزت کا قانون پاکستان میں اتنا مضبوط نہیں اس لئے یہ سب ہوتا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا وکلا نے کبھی اپنے ممبر کیخلاف کارروائی کی صحافیوں نے کی؟ یہ سب ٹریڈ یونین بن گئی ہیں، ہم نے تو آپ کو اپنے ادارے میں کر کے دکھایا آپ بھی کر کے دکھائیں نا ، بعدازاں کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی اورعدالت نے کیاہے کہ سابقہ بنچ کی دوبارہ دستیابی پر کیس دوبارہ مقرر کیا جائے گا، فریقین سے تحریری دلائل بھی طلب کر تے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں