سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جج مظاہر نقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دے دیا

اسلام آباد:سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس(ر) مظاہر علی اکبر کے خلاف کاروائی مکمل ہونے پر جج کی برطرفی کی سفارش کردی۔کونسل کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایاگیاہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے جسٹس مظاہر نقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیدیا۔سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو برطرف کرنے کی سفارش کی ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنی رائے منظوری کیلئے صدر مملکت کو بھجوا دی ہے۔اعلامیے میں مزیدکہاگیاہے کہ سپریم۔جوڈیشل کونسل کے رول پانچ ججز کو شہرت سے بالاتر ہونے کا پابند بناتا ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے رول 5 میں ترمیم کر دی۔ججز اگر کوئی وضاحت جاری کریں تو اسے شہرت حاصل کرنے کیلئے کیا گیا اقدام قرار نہیں دیا جائے گا، رول پانچ میں ترمیم کے بعد الزامات پر وضاحت دینے کا حق ججز کو دیدیا گیا، سپریم جوڈیشل کونسل نے بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔کونسل میں دائر شکایت پر ہائی کورٹ کے جج سے جواب طلب کر لیا گیا، واضح رہے کہ جسٹس (ر) مظاہرعلی اکبر نقوی کے خلاف سپریم۔جوڈیشل کونسل نے بدعنوانی کی شکایت ہر کارروائی شروع کی تھی۔چیف جسٹس قاضی فائزعیسیی کی چیئرمین شپ میں کاروائی میں کی تکمیل کی گئی ، ،شہادتیں مکمل کرلی گئیں ،جبکہ ریٹائرجج نے گواہوں پر جرح کرنے سے انکار کردیاتھا۔ ان کی جانب سے کونسل کوبھجوایاگیاخط ریکارڈکاحصہ بنایاگیا۔کونسل چیئرمین چیف جسٹس قاضی فائزعیسیی نے کہاتھا کہ کونسل دستاویزات اور گواہیوں کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رائے دیںگے،گواہوں نے اپناکام مکمل کرلیااور اب ہم اپناکام مکمل کریں گے۔جسٹس ریٹائرڈ مظاہر علی اکبر نقوی کونسل کاروائی میں شامل نہیں ہوئے،جسٹس مظاہر علی اکبر نے کونسل کو ایک خط لکھا ہے، کونسل کاروائی کے دوران جسٹس مظاہر نقوی کا 29 فروری کو لکھا گیا خط کا آخری پیرا پڑھا گیا۔کونسل کاروائی میں سپریم کورٹ ایمپلائز ہاوسنگ سکیم کے صدر شیر افگن بھی پیش ہوئے ،اور انھوں نے کونسل کوبتایاکہ ہمارے ریکارڈ میں جسٹس ریٹائرڈ نقوی اور انکی اہلیہ کی ایک ایک ممبر شپ ہے، جسٹس ریٹائرڈ نقوی کو ایک پلاٹ الاٹ کیا گیا،جسٹس نقوی نے مجموعی طور ہر چار لاکھ چالیس ہزار روپے ادا کئے، چیف جسٹس نے کارروائی کے اختتام پر پوچھاکہ یہاں موجود کوئی بھی کچھ کہنا چاہتا ہے تو کہہ سکتا ہے،اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بسمہ وارثی کیس کا فیصلہ عدالت میں پیش کیاجسے کونسل ریکارڈکاحصہ بنالیا،کونسل نے جج کے حوالے سے تمام ترتحقیقات مکمل کرلی ہیں اس کے بعداس بارے رائے متعلقہ فورم کوارسال کردی جائیں گی۔واضح رہے کہ بدعنوانی کے الزامات سہنے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مظاہر علی نقوی نے اپنے خلاف چلنے والی سپریم کونسل کی کارروائی کے باعث استعفیٰ دے دیا تھا۔ نو جنوری کو ان کی کونسل کے نوٹسز کے خلاف اپیل بھی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے خارج کر دی تھی۔ جس کے بعد انہوں استعفے میں کہا تھا کہ اس صورت حال میں میرے لیے بطور جج کام کرناممکن نہیں رہا۔ گزشتہ برس اکتوبر میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور 14 روز میں جواب طلب کرلیا تھا۔سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایتیں جمع کرئی گئی تھیں۔ فروی 2023 میں جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف ناجائز اثاثوں اور مس کنڈکٹ پر ریفرنس دائر ہوا تھا جس کے بعد جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی لیے درخواست دائرکی تھی۔نو جنوری کو جسٹس مظاہر نقوی کی آئینی درخواست پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے کی اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔دوسری جانب سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں جسٹس (ریٹائرڈ) مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میرے استعفے کے باوجود جاری ہے، میں 10 جنوری کو مستعفی ہو چکا ہوں جب کہ صدر مملک نے میرا استعفیٰ منظوربھی کر لیا ہے۔انہوں نے لکھا کہ میرے استعفے کی منظوری کا نوٹی فیکیشن آفیشل گزٹ میں بھی شائع ہو چکا ہے، آئین، قانون اور عدالتی فیصلوں کے مطابق ریٹائرڈ ججز کے خلاف کارروائی سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔سابق جج نے اپنے خط میں لکھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا 12 جنوری کا حکم غیر قانونی ہے، اس معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل اپنے اختیار سے تجاوز کر رہی ہے، میں آئینی اور قانونی طور پر کونسل کی اس کارروائی کا حصہ بننے کا پابند نہیں ہوں۔واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس (ریٹائرڈ) مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 7 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرلیے تھے جب کہ جب کہ سپریم جوڈیشل کونسل مزید 4 گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے تھے۔خیال رہے کہ 27 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے اس کے وقت کے جج مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور 14 روز میں جواب طلب کرلیا تھا۔چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایتیں جمع کرادی گئی تھیں اور کونسل نے دو کے مقابلے میں 3 کی اکثریتی رائے سے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر 14 روز میں انہیں جواب دینے کا کہا گیا ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے ججوں نے کہا کہ انہیں سابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایتوں کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔11 نومبر کو جمع کرائے گئے ابتدائی جواب میں سابق جسٹس مظاہر نقوی نے جانبدارانہ اور متعصب رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور چیف جسٹس نعیم اختر کو خود کو بینچ سے الگ کر کے معاملے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔20 نومبر کو سابق جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی کا آغاز غیرعدالتی اور کسی قانونی اختیار کے بغیر تھا۔اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جسٹس مظاہر کو ایک نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔4 دسمبر کو سابق جسٹس مظاہر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔تاہم ان کے خلاف فیصلہ دیاگیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں