مبارک احمد ثانی کیس: سپریم کورٹ کا دینی اداروں سے معاونت کا فیصلہ

اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبارک احمد ثانی کیس میںپنجاب حکومت کی نظرثانی اپیل پر دینی اداروں سے معاونت مانگ لی،اسلامی نظریاتی کونسل سمیت جامعہ نعیمہ، دارالعلوم کراچی، جمعیت الحدیث، قرآن اکیڈمی اور جامعتہ المنتظر لاہور کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریری گزارشات طلب کرلیں،عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا ہے کہ اس کیس میںعلماء کرام کے علاوہ کوئی بھی شخص عدالتی فیصلے پر رائے دینا چاہتا ہے تو تحریری طور پر تین ہفتوں میں دے سکتا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت کی۔تحریک تحفظ ناموس رسالت پاکستان کی جانب سے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ اور امیر جماعت اسلامی کی جانب سے جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش ہوئے جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پیش ہوئے۔کیس کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کامران مرتضی صاحب!آپ نے بھی نظر ثانی کی درخواست دائر کی ہے جس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ ہماری جانب سے دائر نظر ثانی کی درخواست پراسس میں ہے،اس موقع پر وکیل جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ہم نے بھی اس کیس میں نظر ثانی کی درخواست دائر کی ہے اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کی درخواست ابھی ملی ہے لیکن پڑھی نہیں، چیف جسٹس نے رجسٹرار آفس کو امیر جماعت اسلامی کی درخواست کو نمبر لگانے کی ہدایت کردی،شوکت صدیقی نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مبارک احمد ثانی کیس میں عدالت کی درست معاونت نہیں ہوئی ،درست معاونت نہ ہونے پر 6 فروری کے فیصلے میں غلطی ہوئی ہے،ملزم مبارک ثانی نے مقدمے سے دفعات حذف کرنے کی استدعاکی ہی نہیں تھی اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرے کسی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر ہو تو خوش ہوتا ہوں،یقینا نظر ثانی سے اپنی غلطی درست کرنے کا موقع ملتا ہے،نہیں کہتے کہ ہم عقل کل ہیںاس لئے عدالت معاونت کو ویلکم کرتی ہے، اگر فیصلے میں کوئی غلطی ہے تو اسے درست اور معاونت پر شکریہ بھی ادا کریں گے،ہم اوپر والے سے ڈرتے ہیںیہاں تو چھوٹ ہو جائے گی لیکن اوپر چھوٹ نہیں ہوگی ،چیف جسٹس نے کہا کہ یقیناً فیصلوں میں غلطی ہو سکتی ہے،اس لئے آئین میں نظر ثانی کا آپشن دیا گیا ہے ،شوکت صدیقی نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کیس میں عدالت کی درست معاونت نہیں ہوئی ،چیف جسٹس نے کہاکہ دینی معاملے پر معاونت کے لئے آپ حضرات آئے ہیں،ہم ججز عقل کل نہیں ہیں ،اس دوران جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل کومزید بات کرنے سے ٹوکتے ہوئے کہاکہ ہمارے ایمان پر سوال مت اٹھائیں ۔بعد زاں سپریم کورٹ نے مبارک احمد ثانی کیس میں دیگر مکاتب فکر کو بھی نوٹسز جاری کر دیئے۔عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہاہے کہ دینی مکاتب فکر کے علاوہ کوئی بھی عدالتی فیصلے پر رائے دینا چاہتا ہے تو تحریری طور پر تین ہفتوں میں دے سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے دائر نظر ثانی کی درخواستوں کی مزید سماعت تین ہفتوں کے لئے ملتوی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں