نئی مانیٹری پالیسی میں ِ ِ شرح سود کو 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان

کراچی:آئی ایم ایف کے دبائو پر بینک دولت پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی میں ِ ِ شرح سود کو 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کیاہے ،ملکی صنعتکاروں کی جانب سے کئے گئے مطالبے پر کوئی غور نہ کیا جاسکا اور ملکی صنعتکار بدستور مہنگے قرضے حاصل کرنے اور بھاری سود کی ادائیگی پر مجبور رہیں گے۔بینک دولت پاکستان نے پیر کو شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا۔ اسٹیٹ بینک نے اپنے اعلامیہ میں کہا کہ گزشتہ توقعات کے مطابق مہنگائی مالی سال 24کی دوسری ششماہی میں واضح طور پر کم ہونا شروع ہوگئی ہے، تاہم کمیٹی نے نوٹ کیا کہ فروری میں تیزی سے کمی کے باوجود مہنگائی کی سطح بلند ہے،ستمبر 2025 تک مہنگائی کو 5ـ7فیصد کی حدود میں لانے کے لیے موجودہ زری پالیسی موقف قائم رکھنے کی ضرورت ہے ۔ تازہ ترین اعدادوشمار زرعی پیداوار کی بحالی کی بدولت معاشی سرگرمی میں مسلسل معتدل اضافے کے عکاس ہیں، جاری کھاتے کا توازن توقع سے زیادہ بہتر ثابت ہو رہا ہے جس سے مالی رقوم کی کمزور آمد کے باوجود زرمبادلہ کو برقرار رکھنے میں مدد ملی ہے، مارچ میں صارفین کی توقعات بھی بڑھی ہیں، عالمی محاذ پر اجناس کی قیمتوں کا وسیع تر رجحان خوش آئند رہا ہے، تاہم تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے،جس کا ایک جزوی سبب بحیرئہ احمر میں جاری کشیدگی ہیاسٹیٹ بینک کے مطابق حقیقی جی ڈی پی کی نمو 2 تا 3 فیصد کی حد میں رہے گی، خریف کی فصلوں (خصوصاً کپاس اور چاول) کی اچھی کارکردگی کے بعد گندم کی فصل کے امکانات بھی زیر کاشت رقبے میں اضافے کی صورت میں سامنے آئیں گے، خام مال کی بہتر صورت حال اور بلند پیداواری قیمتوں کے باعث خوش آئند معلوم ہوتے ہیں، صنعتی شعبے میں جولائی تا جنوری کے دوران 0.5 فیصد کی معمولی کمی ہوئی، آئندہ مہینوں میں بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ میں بحالی متوقع ہے۔ مانیٹری پالیسی کے مطابق جنوری 2024میں کرنٹ اکائو نٹ خسارہ 269 ملین ڈالر رہا،اس طرح جولائی تا جنوری مالی سال 24ء کے دوران مجموعی خسارہ 1.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جو سال بسال تقریباً 71 فیصد کمی ظاہر کرتا ہے، جس کا سبب برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہیں، برآمدات بڑھنے کی وجہ خوراک کی زائد برآمد ہے جبکہ درآمدی ادائیگیاں اس بنا پر کم رہیں کہ ملکی زرعی پیداوار بہتر ہوئی۔مانیٹری پالیسی بیان کے مطابق ملکی طلب معتدل رہی، اور اجناس کی عالمی قیمتیں معاون ثابت ہوئیں۔ مزید برآں، ترسیلات زر اکتوبر 2023ء سے سال بسال مسلسل بڑھ رہی ہیں جس میں باضابطہ ذرائع سے رقوم کی آمد آسان بنانے کے لیے ضوابطی اصلاحات اور ترغیبات کا کردار ہے۔ مالی رقوم کی آمد جنوری میں معمولی سی کم ہوئی جبکہ اس دوران سرکاری قرضے کی واپسی جاری تھی اور سرکاری اور نجی شعبے کی رقوم کی آمد رْکی ہوئی تھی۔ زری پالیسی کمیٹی کا تجزیہ ہے کہ کرنٹ اکائو نٹ خسارہ مالی سال 24ء کے لیے پیش گوئی یعنی جی ڈی پی کے 0.5 سے 1.5 فیصد کی نچلی سطح کے قریب قریب رہنے کا امکان ہے، جس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن کو مدد ملے گی۔ مالیاتی کھاتوں کے تازہ ترین ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالیاتی یکجائی جاری رہے گی۔ مالی سال 24ء کی پہلی ششماہی کے دوران بنیادی فاضل رقم بہتر ہو کر جی ڈی پی کا 1.7 فیصد ہوگئی جو گذشتہ سال اسی مدت میں 1.1 فیصد تھی، جبکہ مجموعی مالیاتی خسارہ مزید بڑھ کر جی ڈی پی کا 2.3 فیصد ہوگیا جو مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی میں 2.0 فیصد تھا۔ بنیادی فاضل رقم اور جی ڈی پی کے تناسب میں آنے والی بہتری کے اہم اسباب محاصل کی، خصوصاً نان ٹیکس ذرائع سے بہتر وصولی، اور غیر سودی اخراجات کو نسبتاً محدود رکھنا ہیں۔ سودی ادائیگیوں میں معقول اضافے نے، جبکہ قرضے کی سطح بلند ہے اور مہنگی ملکی فنانسنگ پر بڑھتے ہوئے انحصار کی بنا پر مجموعی خسارے میں اضافہ ہوا۔ زری پالیسی کمیٹی نے زور دیا کہ بحیثیت مجموعی میکرو اکنامک مضبوطی اور قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مالیاتی یکجائی جاری رکھنا لازمی ہے۔ زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے، حسبِ توقع، زرِ وسیع (ایم 2) کی نمو سال بہ سال بنیادوں پر فروری 2024ء میں کم ہوکر 16.1 فیصد ہوگئی جو دسمبر میں 17.8 فیصد تھی۔ یہ اعتدال بینکاری نظام کے خالص ملکی اثاثوں میں کم نمو کی وجہ سے آیا جس کی بنیادی وجہ نجی شعبے کے قرض اور اجناس کی مالکای کے آپریشنز میں وسیع البنیاد سکڑاؤ ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ زرِ بنیاد کی نمو میں کمی کا سلسلہ جاری رہا اور فروری میں یہ تیزی سے کم ہوکر8.2 فیصد ہوگئی۔ مزید برآں، بینک ڈپازٹس میں بھرپور اضافے اور زیرِ گردش کرنسی میں کمی کے رجحان کی وجہ سے کرنسی اور ڈپازٹس کے تناسب میں کمی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ زری مجموعوں کے یہ رجحانات مہنگائی کے منظر نامے کے لیے نیک شگون ہیں۔ زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ عمومی مہنگائی میں وسیع البنیاد اور خاصی حد تک سال بسال نمایاں کمی درج کی گئی، جو جنوری میں 28.3 فیصد سے کم ہوکر فروری کے دوران 23.1 فیصد ہوگئی۔ اگرچہ غذائی مہنگائی میں کمی کا رجحان جاری رہا تاہم قوزی مہنگائی ، جو برقرار رہی تھی، گھٹ کر فروری میں 18.1 فیصد رہ گئی جبکہ جنوری میں یہ 20.5 فیصد تھی۔ مہنگائی میں بہتری بڑی حد تک تخفیفی زری پالیسی، مالیاتی یکجائی، خوراک کی بہتر رسد، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اعتدال اور سازگار اساسی اثر کے مشترکہ اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ اگرچہ فروری میں توانائی کی مہنگائی میں بھی سال بسال بنیاد پر کمی واقع ہوئی ہے تاہم توانائی کی سرکاری قیمتوں میں ردّوبدل براہ راست اور بالواسطہ طور پر مہنگائی پر اثرانداز ہورہا ہے۔ اس کے صارفین اور کاروباری اداروں دونوں کی مہنگائی کی توقعات میں مطلوبہ مستقل کمی کے لیے مضمرات ہیں۔ آگے چل کر سرکاری قیمتوں میں مزید ردوبدل یا مالیاتی اقدامات جو قیمتوں میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں، قریب مدتی اور وسط مدتی مہنگائی کے منظرنامے کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ان خطرات کے پیشِ نظر کمیٹی نے کا تجزیہ تھا کہ اس مرحلے پر زری پالیسی کے موجودہ موقف کو برقرار رکھنا محتاط طرز عمل ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں