ایران دنیا کی سب سے پہلا ملک ہیں جنہوں نے پاکستان کو تسلیم کیا ۔ پاکستان آزادی کے بعد ایران کے قدرتی اتحادی تھے سہارے خطے میں ہم بھی مغربی اتحاد کے حصہ تھے تو ایران بھی اس بلاک میں تھا۔ دونوں کمیونسٹ بلاک کے خلاف تھے۔ دونوں ممالک کے درمیان مذہبی ثقافتی اور تاریخی تعلقات پائے جاتے ہیں۔ آزادی کے بعد ہم دونوں سیٹو سینٹو بلاک کے حصہ رہے اور ایران نے پاکستان کو 1965 اور 1971 کے جنگ میں مدد کی اور پاکستان نے بھی ایران عراق جنگ میں ایران کے مدد کی تھی اس کی علاوہ جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں جنرل صاحب نے جذبہ خیر سگالی کے تحت بارڈر پر پاکستان ایران بارڈر کے محط کچھ علاقوں کو جیسے میرجاوا کے علاقے کو ایران کو دیا گیا تھا ۔ ایرانی اور پاکستانی عوام ایک دوسرے سے انتہائی محبت کرتے ہیں۔ غرض روز اول سے پاکستان اور ایران خطے کی معاملات پر ایک ہی موقف رکھتے ہیں۔
پھر 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا اور پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا وہ بھی عالم اسلام کے اتحاد کے بڑے داعی تھے وہ ایک گریٹر مسلم بلاک بنانا چاہتے تھے۔ تو عین ایران میں بھی اسلامی انقلاب کی چاند نمودار ہوا ایک دفعہ پھر پاکستان ایران ایک قدرتی اتحادی کے طور پر منظر عام پر آگئے خطے اور مسلم دنیا کے لئے دونوں ممالک کے یکساں موقف رکھتے تھے اور پھر وہی ہوا ہم نے ایران عراق جنگ میں ایران کے بھرپور مدد کی ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جناب سیعد علی خامنہ ی نے پاکستان کی دورہ بھی کیا اور علامہ اقبال جس سے ایرانی اقبال لاہور کی نام سے یاد کرتے ہیں ان پر ایک طویل لیکچر بھی دیا اچھا ایران میں علامہ اقبال کو بہت پسند کیا جاتا علامہ اقبال کی 98 فیصد شاعری فارسی میں ہیں ویسے رومی اور علامہ اقبال دونوں پاکستان اور ایران میں ان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ دونوں ممالک خطے مسلم دنیا مسلہ فلسطین اور سامراجی قوتوں کے خلاف یکساں موقف رکھتے ہیں روز اول سے اور مسلم دنیا کے انتہائی اہم ممالک ہیں
دونوں ممالک کے درمیان مذہبی ثقافتی تاریخی اور تجارتی تعلقات پائے جاتے ہیں پاکستان ایران کے دوسرے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر اور ایران پاکستان کے تیسرے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان سے ہر سال لاکھوں لوگ زائرین جاتے ہیں ایران اور اس کی علاوہ پاکستان ایران کے انتہائی قریبی دوستوں میں شمار کیا جاتا ہیں۔
پاکستان اور ایران کے تعلقات میں امریکہ بھی بہت بڑی فیکٹر ہے کیونکہ امریکہ نے ایران پر پابندیاں لگائی ہیں اس وجہ سے پاکستان ایران کے معاشی تعلقات اس لیول تک نہیں پہنچ سکے جو کہ پہنچنا چاہیے تھا پاکستان یہ حق رکھتا کہ ایران کے ساتھ تعلقات رکھے اور معاشی تعلقات کو مضبوط رکھے جیسے بھارت ایران اور روس سے تعلقات رکھتے ہیں تو پاکستان بھی یہ حق رکھتا کہ ایران اور روس سے اپنے معاشی تعلقات بحال کرے پاکستان ایک امن پسند ملک ہیں انہوں نے ایران اور سعودی عربیہ ہو یا امریکہ اور ایران ہو انہوں ہمیشہ بیلنس تعلقات رکھے ہیں ایران پاکستان کے ہمسایہ ملک ہیں بلا کسی جھجھک پاکستان کو ایران کے ساتھ معاشی تعلقات بحال کرنا چاہیے روس اور ایران سے ہمیں تیل گیس اور بالخصوص پاکستان کی انرجی بحران میں ایران اچھا رول ادا کر سکتے ہیں۔ اور ایران روس سے ہمارے معاشی معاہدے کسی ملک کی خلاف نہیں ہم اپنے ملک کی بحرانوں کو ختم کرنے کے لیے معاہدے کر رہے ہیں۔
اب مشرقی وسطی جنوبی ایشا اور بالخصوص ہمارے خطے کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں ایک دفعہ پھر پاکستان ایران قدرتی اتحادی کے طور پر ابھر رہے ہیں پاکستان اور ایران مشرقی وسطی ہو غزہ فلسطین ہو یا افغانستان ہو یا عالمی سامراجی قوتوں کے خلاف یکساں موقف رکھتے ہیں اور پاکستان ایران دونوں چین کے سٹریٹجیک پارٹنرز ہیں چین کے ایران سے 400 بلین ڈالر معاہدہ ہیں پاکستان کے چین سے سی پیک معاہدے میں 65 بلین ڈالر معاہدہ ہیں مشرقی وسطی جنوبی ایشا یا فلسطین ہو دونوں یکساں موقف رکھتے ہیں ہمارے مفادات اور چیلنجز مشترکہ ہوتی جا رہی ہیں بلکہ تمام خطے کے مفادات اور چیلنجز یکساں ہوتی جا رہی ہیں جیسے چین روس پاکستان ایران افغانستان اور سینٹرل ایشا کے ممالک کو مشترکہ طور پر ان سامراجی قوتوں کے خلاف لڑنا ہے اور دوسری طرف مشرقی وسطی میں بھی مسلم ممالک کو سامراجی قوتوں کے خلاف یک جان ہونا چاہئے تاکہ مسلم دنیا کے درمیان سامراجی طاقتیں دراڑیں نہ ڈالے۔
حالیہ ایران کے صدر محترم ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کے ایک اہم کامیاب دورہ کیا اور پاکستان کے ساتھ معاشی تعلقات کو 10 بلین ڈالر تک پہنچانے کی ٹان لی اور یہ دونوں ممالک کے لیے انتہائی اہم ہے کیونکہ پاکستان گیس تیل اور بجلی بحران کو ایران سے ہی یہ پوری ہوسکتی ہیں اور دوسرے کے مقابلے میں پاکستان کو یہ سستا پڑھتی ہیں ایران گیس پائپ لائن ہو کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔ نہ صرف پاکستان ایران بلکہ چین روس افغانستان اور سینٹرل ایشا کے ممالک ون بلیٹ ون روڈ اور مختلف اہم معاہدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہئے جیسے کاسا، تاپی ، آئی پی ، سی پیک ، اور ون بیلٹ ون روڈ ان تمام معاہدے کو مکمل ہونا چاہیے تاکہ خطہ بھی عالمی جنگوں کی آماجگاہ نہیں بن جائے۔ تاکہ تمام خطے کے مفادات اور چیلنجز مشترکہ ہو اور مشترکہ طور پر ہی عالمی سامراجی قوتوں کے خلاف لڑا جاسکتا ہیں
پاکستان اور ایران کے درمیان سمگلنگ، ہومن ٹریفکینگ ، دہشت گرد دونوں ممالک کے درمیان ان مشترکہ تنازعات کو فلفور ختم کرنے کی ضرورت ہیں اور حالیہ دورے میں محترم صدر رئیسی نے بھی ان مسائل کو ختم کرنے کے بات کی اور پاکستان ایران کو ہومن ٹریفکینگ دہشت گردی اور سمگلنگ اور بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے ان تمام مسائل کو حال کرنا چاہیے۔
تحریر: نجیب خان کاکڑ